پنجاب میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ہنر مندی کی تربیت: ایک انقلابی قدم
پنجاب کی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے حال ہی میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو نہ صرف ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی زندگیوں میں بہتری لا سکتا ہے، بلکہ پاکستان کی سماجی سوچ میں بھی ایک مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ اُن کے حکم پر “ٹیکنیکل اسکلز ٹریننگ” اور “پنجاب اسکلز ڈیولپمنٹ فنڈ” کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی ہنر مندی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
🧠 پروگرام کی تفصیل
اس اقدام کے پہلے مرحلے میں 1600 ٹرانس جینڈر افراد کو مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے گی۔ جن مہارتوں کی تربیت دی جائے گی، اُن میں شامل ہیں:
- آئی ٹی اور فری لانسنگ
- ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ
- بیوٹی سروسز
- کھانا پکانے کے فنون
- الیکٹریکل اور سولر ٹیکنالوجی
- فیشن ڈیزائننگ اور سلائی
یہ تمام ہنر ایسے ہیں جو موجودہ دور میں نہ صرف آمدنی کا ذریعہ بن سکتے ہیں بلکہ خود انحصاری اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ بھی کھول سکتے ہیں۔
💔 مسائل کی جڑ: معاشرتی بائیکاٹ
پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو دہائیوں سے معاشرتی سطح پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اسکول، کالج، دفاتر، حتیٰ کہ گھروں تک میں اُن کی شناخت اور موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی بائیکاٹ کی وجہ سے:
- نوکریوں کے مواقع ناپید ہوتے ہیں
- تعلیم تک رسائی محدود ہوتی ہے
- انہیں مجبوری کے تحت بھیک مانگنے، ناچنے یا دیگر ناپسندیدہ سرگرمیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے
مریم نواز نے اسی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
“ٹرانس جینڈر افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ معاشرہ اُنہیں قبول نہیں کرتا اور اُن کے لیے نوکریوں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔”
🌱 یہ اقدام کیوں اہم ہے؟
1. عزت کے ساتھ روزگار کا حصول
یہ پروگرام ٹرانس جینڈر افراد کو وہ مواقع دے گا جہاں وہ بھیک یا تفریحی سرگرمیوں کے بجائے باعزت طریقے سے روزی کما سکیں۔
2. خود انحصاری اور آزادی
فری لانسنگ اور آئی ٹی کے شعبے انہیں عالمی مارکیٹ تک رسائی دے سکتے ہیں، جہاں اُنہیں صنفی امتیاز کا سامنا کم سے کم ہوتا ہے۔
3. سماجی سوچ میں تبدیلی
جب ٹرانس افراد مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں اپنی صلاحیتیں منوائیں گے، تو معاشرے کی سوچ خودبخود بدلے گی۔
4. خاندانی اور معاشرتی تعلقات کی بحالی
آمدنی کے ذرائع بننے سے کئی ٹرانس افراد کو دوبارہ اپنے خاندانوں میں جگہ مل سکتی ہے، کیونکہ اکثر اوقات مالی مجبوری ہی ان تعلقات کے بگاڑ کی وجہ بنتی ہے۔
🚧 چیلنجز بھی موجود ہیں
اگرچہ نیت نیک ہے، مگر اس پروگرام کی کامیابی کچھ اہم نکات پر منحصر ہے:
- تربیتی مراکز میں حقیقی مساوی سلوک
- تربیت مکمل ہونے کے بعد ملازمت کے مواقع کی فراہمی
- ہراسانی سے تحفظ اور قانونی مدد
- سوسائٹی کی شعور بیداری کے لیے میڈیا اور مہمات
🛠️ مستقبل میں کیا کیا جا سکتا ہے؟
- سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کیا جا سکتا ہے
- ٹرانس فرینڈلی ورک پلیس پالیسیز نافذ کی جائیں
- ٹرانس رول ماڈلز کو سامنے لا کر حوصلہ افزائی کی جائے
- مائیکرو فنانس اور کاروباری قرضوں کی سہولت دی جائے
🕊️ اختتامی کلمات
یہ پروگرام صرف ایک تربیت نہیں، بلکہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے۔ اگر حکومتی سطح پر اس کی نگرانی اور عملی نفاذ مسلسل جاری رکھا گیا، تو یہ ہزاروں ٹرانس جینڈر افراد کو پسماندگی اور محرومی کے دائرے سے نکال کر ترقی، خوشحالی اور باعزت زندگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
آخر میں، ہمیں بطور معاشرہ بھی اپنے رویے پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔ کیونکہ حکومت صرف راستہ دکھا سکتی ہے، مگر اصل تبدیلی ہماری سوچ میں ہی چھپی ہے۔
اگر آپ بیرونِ ملک روزگار، ویزا اپڈیٹس، ٹریولنگ گائیڈز، اور اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق تازہ ترین خبریں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو Elite Umar Overseas کو ضرور فالو کریں۔ یہ پلیٹ فارم آپ کو مستند معلومات، مفید مشورے، اور روزگار کے مواقع کی تفصیلات فراہم کرتا ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو بہتر مستقبل کے لیے بیرونِ ملک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔