آسٹریلیا کی نئی امیگریشن پالیسی: بین الاقوامی طلباء کے لیے خطرے کی گھنٹی

تحریر

بین الاقوامی طلباء کے لیے آسٹریلیا ہمیشہ ایک پرکشش اور قابل اعتماد تعلیمی منزل رہی ہے۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم، کثیر الثقافتی ماحول اور روشن مستقبل کی امید نے لاکھوں طلباء کو آسٹریلوی یونیورسٹیوں کی طرف راغب کیا۔ تاہم، حالیہ سیاسی پیش رفت نے اس خواب کو دھندلا کر دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن نے اپنی امیگریشن پالیسی میں بین الاقوامی طلباء کے لیے سخت شرائط اور محدود داخلوں کی تجاویز پیش کی ہیں، جو نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ ہزاروں خواہشمند طلباء کے لیے بھی تشویش کا باعث بن چکی ہیں۔

کیا تجویز کیا جا رہا ہے؟

کوآلیشن کی تجویز کردہ پالیسی کا بنیادی مقصد ہاؤسنگ بحران سے نمٹنا اور ملک میں بڑھتی ہوئی کرایہ داری کے دباؤ کو کم کرنا ہے۔ اس پالیسی کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

📌 سالانہ طلباء کی حد (Cap):

  • آسٹریلیا میں سالانہ بین الاقوامی طلباء کی حد 240,000 مقرر کی جائے گی، جو کہ موجودہ لیبر حکومت کی مجوزہ 270,000 کی حد سے کم ہے۔

📌 عوامی یونیورسٹیز:

  • ہر عوامی یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلباء کی تعداد کل طلباء کے 25% سے زیادہ نہیں ہو سکے گی۔
  • سالانہ 115,000 نئے داخلے کی اجازت دی جائے گی۔

📌 پرائیویٹ اور وکیشنل ادارے:

  • نجی اداروں اور ٹیکنیکل (VET) ٹریننگ سینٹرز میں مجموعی طور پر 125,000 بین الاقوامی طلباء داخل ہو سکیں گے۔

ویزا فیس میں اضافہ – طبقاتی فرق یا مالی بوجھ؟

تجویز کردہ پالیسی کا ایک اور متنازع پہلو ویزہ فیس میں اضافہ ہے:

  • گروپ آف ایٹ (Go8) یونیورسٹیز کے لیے ویزہ درخواست فیس $5,000 کر دی گئی ہے۔
  • دیگر تعلیمی اداروں کے لیے یہ فیس $2,500 مقرر کی گئی ہے۔

یہ فیصلہ ان طلباء کے لیے مالی بوجھ کا باعث بنے گا جو پہلے ہی فیس، رہائش، اور دیگر اخراجات سے پریشان ہوتے ہیں۔ گو کہ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے یونیورسٹیز کی مالی خودمختاری بڑھے گی اور ہاؤسنگ کی طلب میں کمی آئے گی، لیکن ناقدین اس کو “تعلیم کی طبقاتی تفریق” قرار دے رہے ہیں۔


گریجویٹ ویزا پروگرام میں تبدیلیاں

Temporary Graduate Visa، جس کے ذریعے طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ آسٹریلیا میں رہ کر کام کر سکتے ہیں، بھی اب حکومت کے نشانے پر ہے۔

تجویز کردہ تبدیلیاں:

  • مستقل رہائش کے امکانات محدود کیے جائیں گے۔
  • صرف ان شعبوں کو ویزہ دیا جائے گا جہاں واقعی مہارتوں کی کمی ہو۔
  • طلباء ویزے کا غلط استعمال روکنے کے لیے قوانین سخت کیے جائیں گے۔

تعلیمی شعبے کا ردعمل

آسٹریلیا کی یونیورسٹیز اور ماہرین تعلیم نے ان پالیسیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے ان اقدامات کو ڈونلڈ ٹرمپ دور کی امیگریشن پالیسیوں سے تشبیہ دی ہے۔

:خدشات

  • یونیورسٹیوں کی آمدنی میں نمایاں کمی
  • کیمپسز میں ثقافتی تنوع کا خاتمہ
  • آسٹریلیا کی عالمی سطح پر خوش آمدیدی شبیہ کو نقصان
  • مقامی آسٹریلوی طلباء کے لیے بھی تعلیمی معیار میں کمی کا خدشہ

حکومت کا مؤقف: ہاؤسنگ بحران کا حل

پیٹر ڈٹن اور کوآلیشن کا موقف ہے کہ بین الاقوامی طلباء کی بڑی تعداد کرائے کے مکانات کی طلب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، خاص طور پر سڈنی اور میلبورن جیسے بڑے شہروں میں۔ ان کے بقول، اس پالیسی سے ہاؤسنگ مارکیٹ میں توازن پیدا ہوگا اور مقامی افراد کو بہتر مواقع میسر آئیں گے۔


طلباء کو کیا کرنا چاہیے؟

آئندہ انتخابات 3 مئی 2025 کو متوقع ہیں، اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کا دارومدار انتخابی نتائج پر ہوگا۔ تب تک بین الاقوامی طلباء کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:

✅ جلدی درخواست دیں اور اپنے داخلے کو محفوظ کریں
✅ ویزہ فیس اور ممکنہ قوانین میں تبدیلی پر نظر رکھیں
✅ متبادل ممالک یا کم اخراجات والے اداروں پر غور کریں
✅ اہل اداروں یا ایجنٹس سے مصدقہ رہنمائی حاصل کریں


نتیجہ: تعلیم اور امیگریشن کا نیا منظرنامہ

اگر کوآلیشن کی یہ پالیسیاں لاگو ہو گئیں، تو آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنا نہ صرف مہنگا بلکہ محدود بھی ہو جائے گا۔ ہزاروں پاکستانی طلباء جو آسٹریلیا میں اعلیٰ تعلیم اور مستقبل کے بہتر مواقع کے خواب دیکھ رہے ہیں، اُن کے لیے یہ پالیسی ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔

Elite Umar Overseas ایسے تمام طلباء کو وقتاً فوقتاً اپڈیٹس، ویزہ گائیڈز اور محفوظ تعلیمی راستے فراہم کرتا رہے گا۔ ہماری ٹیم آپ کو دنیا بھر کے ممالک میں تعلیم، روزگار، اور امیگریشن کے بہتر مواقع سے باخبر رکھتی ہے۔


Elite Umar Overseas کو فالو کریں — اگر آپ چاہتے ہیں بین الاقوامی تعلیم، روزگار، اور سفر سے متعلق مستند خبریں اور گائیڈز، سب سے پہلے!

Similar Posts