پاکستانی محنت کشوں کے لیے بیرونِ ملک روزگار کے مواقع: ایک نیا سفر
پاکستانی محنت کشوں کے لیے بیرونِ ملک روزگار کے مواقع: ایک نیا سفر
پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے پیش نظر، ہر سال لاکھوں پاکستانی شہری بہتر زندگی کی تلاش میں بیرونِ ملک ہجرت کرتے ہیں۔ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں، 172,144 پاکستانی شہری نے 50 سے زائد ممالک کا رُخ کیا، اور زیادہ تر افراد نے خلیج کے ممالک میں روزگار کے مواقع حاصل کیے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ہر سال بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ پاکستان کے نوجوان طبقے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، معیشت کی غیر مستحکم حالت، اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کے لیے روزگار کے مواقع کا فقدان ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ملک میں بہتر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، زیادہ تر افراد کے پاس ایسی ملازمتیں نہیں ہیں جو ان کی مہارت اور تعلیم کے مطابق ہوں۔ نتیجتاً، نوجوان طبقہ اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر آزمانے کے لیے بیرونِ ملک جانے کی طرف راغب ہو رہا ہے۔
بیرونِ ملک روزگار: ایک نیا موقع
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی ہے، مگر بیرونِ ملک مواقع کا بازار کھلا ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں، خاص طور پر خلیجی ممالک میں پاکستانی محنت کشوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں تعمیرات، صحت کے شعبے، فنی مہارتوں، اور دیگر شعبوں میں پاکستانی ورک فورس کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
خلیجی ریاستوں میں، جہاں پاکستانی کارکنوں کی سب سے زیادہ مانگ ہے، وہاں بہتر تنخواہوں اور رہائشی سہولتوں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
ہجرت کا مثبت پہلو
پاکستانی شہری جو بیرونِ ملک روزگار کے مواقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ صرف مالی فائدہ ہی نہیں حاصل کر رہے بلکہ عالمی سطح پر اپنے ہنر کو بھی منوا رہے ہیں۔ بیرونِ ملک کام کرنے سے ان افراد کو نہ صرف مالی استحکام مل رہا ہے، بلکہ یہ ان کے لیے نئی مہارتیں سیکھنے، ثقافتوں کا تبادلہ کرنے اور عالمی معیار کے کام کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
یہ افراد جب واپس اپنے وطن آتے ہیں تو ان کے پاس نہ صرف بہتر مالی وسائل ہوتے ہیں بلکہ وہ عالمی سطح پر سیکھے گئے تجربات کو بھی اپنے ملک کی ترقی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے فوائد
پاکستان کے لیے بھی یہ ایک مثبت پہلو ہے کیونکہ ان افراد کی طرف سے بھیجے گئے رمیٹنس (remittances) معیشت کے لیے اہم ہیں۔ 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان سے ہجرت کرنے والے افراد کی طرف سے بھیجے گئے پیسے معیشت میں بہتری لا رہے ہیں۔ ان رمیٹنسز سے نہ صرف مقامی کاروبار چلتے ہیں بلکہ اس سے ملک کی کرنسی کی قیمت بھی مستحکم رہتی ہے۔
پاکستانی ٹیلنٹ کی عالمی سطح پر پذیرائی
پاکستانی محنت کشوں کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے کام کی دنیا بھر میں پذیرائی ہو رہی ہے۔ زیادہ تر خلیجی ممالک میں پاکستانی کارکنوں کو نہ صرف ان کے کام کی وجہ سے تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے اور کام کی نوعیت بھی مثبت ردعمل کا سبب بنتی ہے۔ پاکستانیوں کو دنیا بھر میں محنت کش، باہمت، اور محنتی افراد کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پاکستان پر منفی اثرات
اگرچہ بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پاکستانیوں کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو رہے ہیں، لیکن اس کے پاکستان پر منفی اثرات بھی ہیں:
- دماغی سرمایہ کا نقصان:
بیرونِ ملک جانے والے افراد میں اکثر وہ نوجوان شامل ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوتے ہیں۔ ان کی ہجرت سے ملک کو اپنے “دماغی سرمایہ” کی کمی ہو جاتی ہے، جو ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ - معاشی نقصان:
اگرچہ رمیٹنسز پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں، لیکن ملک میں نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع کا فقدان ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ان افراد کو ملک میں ہی روزگار مل سکے۔ - مقامی کاروبار کی کمی:
جب لوگ بیرونِ ملک جاتے ہیں، تو وہ اکثر اپنی سرمایہ کاری اور کاروبار کے مواقع بھی وہاں تلاش کرتے ہیں۔ اس سے پاکستان میں مقامی کاروباروں کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے۔ - خاندانی اثرات:
خاندانی تعلقات میں بھی دراڑیں پڑ سکتی ہیں کیونکہ بہت سے پاکستانی اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر بیرونِ ملک روزگار کے لیے جاتے ہیں۔ اس سے ان کے گھریلو زندگی اور خاندانوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آگے کی راہ
یہ وقت ہے کہ پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو بیرونِ ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں ہی ترقی کے مواقع مل سکیں۔
اگرچہ بیرونِ ملک روزگار حاصل کرنے والے افراد کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن ہم سب کو مل کر ایسے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک میں بھی کامیاب ہو سکیں۔
نتیجہ
پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی کے باوجود، بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پاکستانی محنت کشوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ان افراد نے اپنے عزم، محنت، اور مہارت کی بنیاد پر دنیا بھر میں اپنی جگہ بنائی ہے، اور ان کا تجربہ نہ صرف ان کی ذاتی کامیابی کا باعث ہے بلکہ ہمارے ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
پاکستانی محنت کشوں کا عالمی سطح پر پھیلنا، نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔